میں آپ کے ساتھ نماز کے حقائق پر بات کرنا چاہوں گا اولیاءِِکرام نے نماز کے بارے میں ارشادفرمایا
نماز مومنون کی معراج ہے۔
جب اللّه نے حضور اکرم ؐ کو ملاقات کے لیے بلایا اس موقے کا نام معراج رکھا گیا۔
اور نماز کو بھی مومنوں کی معراج کہا گیا۔
اس بات سے ہمیں یہ دلیل ملتی ہے کہ نماز اللّه سے ملاقات ہے۔
حضور اکرم ؐ نے نماز کی ادائیگی کے بارے میں ارشاد فرمایا۔
نماز ایسے پڑھو جیسے تم اللّه کو دیکھ رہے ہو۔ اگر یہ نہ کر پاؤ تو یہ تصور کرو کہ اللّه تمہیں دیکھ رہا ہے۔
میں آپ کو حق الیقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اگر آپ 66 روز نماز اس تصور کے ساتھ پڑھیں تو آپ اللّه کے نور اور تجلیات کا مشاہدہ کرنے لگ جائیں گے۔
جب ہم مکمل توجہ سے اللّه کا ذکر کرتے ہیں ھمارے دل میں اس ذکر کے زریعے فیلنگز پیدا ہوتی ہیں اس فیلنگز میں اللّه کا نور ھمارے دل کو سیراب کرتا ہے پھر یہی نور ہماری آنکھ بن جاتی ہے جس کے ذریعے ہم اللّه کے نور اور تجلیات کا مشاہد کرتے ہیں۔ اور یہی نور ہماری ذہن کا حصہ بن جاتی ہے۔
جب آپ کی تمام توجوہ ایک مرکز کی طرف یکسو ہو جاتی ہے یعنی اللّه کی طرف یکسو ہو جاتی ہے تو آپ پر مراقبے کیفیت طاری ہو جاتی ہے اس طرح آپ کے خواب اور بیداری کے حواس بیک وقت استعمال ہونے لگتے ہیں اور آپ جاگتے ہوے روحانی دنیا کی طرف سفر کرنے لگتے ہیں۔
نماز اسی فرض عبادت ہے جسکے بارے میں اللّه نے قرآن میں ہمیں بہت ساخت الفاظ میں وارننگ دی ہے۔
سوره معاعون میں اللّه نے ارشاد فرمایا۔
بربادی ہے ان نمازیوں کے لیے جو اپنی نمازوں سے بےخبر ہیں۔
یعنی وہ نمازی جو نماز کے اصّل تقاضوں کو پورا نہیں کرتے ان کے لیے اللّه طرف سے بربادی ہے۔
مسّلم شریف کی حدیث ہے کہ:
وہ نماز نہیں جس میں اپکا دل اللّه کے سامنے حاضر نہیں۔
اب ہمیں خود سے یہ سوال کرنا ہوگا کہ کیا ہم واقعی نماز ادا کرتے ہیں؟
ھمارے اندر کا انسان ہمیں خود اس بات کا جواب دے دے گا۔
ہم نماز میں بہت سے كالمات بار بار زبان سے ادا کرتے جیسا کہ اللّه اکبر۔
یعنی اللّه سب سے بڑا ہے۔
یہ الفاظ ھمارے ذہن میں ایک تصور پیدا کرتا کہ اللّه ہر چیز سے بڑا ہے اور یہ تصور ھمارے من میں فیلنگز پیدا کرنے لگتا ہے۔ بار بار دل میں پیدا ہونے والی یہ فیلنگز ھمارے دل میں مستقل سیو ہونے لگتی ہیں پھر ہمارا وجود ہر قدم پر اللّه اکبر کی گواہی بن بولے دینے لگتا ہے۔
کافر ہو شمشیر پے کرتا ہے بھروسہ،
مومن ہو تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی۔
سامیعین ۔۔نماز ایک فرض عبادت ہے اور اللّه نے قرآن میں ارشاد فرمایا۔
اور عبادت کرو یہاں تک کہ تمارا یقین مکمّل ہو جائے۔
مکمّل یقین کسے کہتے ہیں ؟ کیا آپ نے کبھی سوچا؟
یقین کے تین مدارج ہیں۔
پہلا مرحلہ علم الیقین ہے- اس سے مراد ہے کہ آپ بِن دیکھے صرف علم ہونے کی وجہ سے یقین کرتے ہیں۔
دوسرا مرحلہ عین الیقین ہے ۔ اس مرحلے پر پہنچ کر آپ آنکھوں سے بھی دیکھنے لگ جاتے ہیں اور عرفان حاصل کرتے ہیں۔ اسکے بعد آپ یقین کے تیسرے مرحلے کی طرف سفر کرنے لگتے ہیں
تیسرا مرحلہ حق الیقین ہے۔
اس مرحلے پر پہنچ کر آپ کو مکمل یقین حاصل ہو جاتا ہے ایک طرف ہزاروں کی فوج آپ کے خلاف کھڑی ہو تو اپکا دل صرف اسی بات پر قائم رہتا ہے کہ میں تو حق کے لیے لڑونگا ہار اورجیت کا فیصلہ فوج کی تعداد نہیں بلکہ اللّه کی ذات کرے گا۔
یقین کے تین مرحلے جاننے کہ بعد آپ بخوبی اس بات سے اگاہ ہو گئے ہونگے کہ مکمّل یقین سے کیا مراد ہے۔
کچھ علماء کا خیال ہے کہ اس آیت سے مراد ہے کہ عبادت کرو یہاں تک کہ تمہیں موت آ جائے۔
اسی پر اتفاق کر لیتے ہیں۔
تو سنیں۔
حضور اکرم ؐ نے ارشاد فرمایا۔
اور مر جاؤ مرنے سے پہلے۔
اس حدیث کا مہفوم ہے کہ موت سے پہلے اپنی ان آنکھوں کو بیدار کر لو جو آنکھیں مرنے کے بعد بیدار ہو نگی۔تاکہ مرنے سے پہلے ہر اس حقیقت سے واقف ہو جاؤ جو مرنے کے بعد واقف ہوگے۔
یہ بات ذہن نشیں کر لیں کہ۔
قرآن اور حدیث کو ہر انسان اپنے ذہنی اور روحانی مقام کے مطابق سمجھتا ہے۔
امید ہے کہ آپ میری تمام باتوں کے مقصد سے واقف ہو گئے ہونگے۔ اپنا بہت خیال رکھیے گا اور ہمیں اپنی دعاوں میں یاد رکھیے گا۔